حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی و شیعہ علماء کونسل پاکستان کے رہنما علامہ شبیر میثمی نے خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام خمینیؒ ایک سادہ انسان تھے۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والی شخصیت تھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک شیعہ ملک ہے اور اس کا حاکم سوائے ظلم کے کچھ نہیں جانتا۔ ظلم سے مراد یہ نہیں کہ کوڑے مارو، قتل کردو، قید میں ڈال دو۔ ظلم یہ ہےکہ جہاں پر بیٹیوں کو پردے میں گھومنا چاہئے، جہاں پر شراب فروخت نہیں ہونی چاہئے، جہاں حرام امور کھل کر نہیں انجام پانے چاہئیں، وہاں پر اگر یہ چیزیں رائج ہوجائیں تو ظلم ہوگا۔ میرے مولا سے کسی نے ظلم کی تعریف پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ جس چیز کی جو جگہ ہو، اسے وہاں نہ رکھا جائے تو یہ ظلم ہوگا۔ میں جوتے اٹھاؤں اور وہاں سے اٹھا کر یہاں رکھ دو تو یہ ظلم ہوگا کیونکہ یہ جگہ جوتوں کے رکھنے کی نہیں ہے۔ امام خمینیؒ نے دیکھا کہ جس ملک میں اہل بیت علیہم السلام کے مزارات ہیں، جہاں پر تشیع محرم و صفر میں بھرپور عزاداری کرتی ہے، وہاں نظام اسلامی کی بجائے، نظام فسق جاری ہے۔ میں یہاں پر آپ سے رائے لیتا ہوں۔ ہم دو نظام قائم کرسکتے ہوں، ایک نظامِ احکام شرعی ہو اور ایک نظامِ شراب خوری ہو مثلاً یزید جیسی حکومت، ایک ایسی حکومت جہاں فسق و فجور کرایا جا رہا ہو۔ انسانی عقل کہتی ہے کہ اگر ہم دس ہزار احکام شرعی میں سے ایک ہزار احکام شرعی بھی رائج کرسکیں تو ہمیں ایسا کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ اس طرح ہم آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہیں گے۔ حضرت امام خمینیؒ نے اللہ پر بھروسہ کیا اور ان کے تقویٰ نے اثر دکھایا۔ اس لئے کہ جو اللہ پر بھروسہ کرے گا، اللہ کی پروا کرے گا اللہ اس کے لئے راستہ نکالے گا۔ جہاز پر پیرس سے تہران آرہے تھے، کسی نے پوچھا کہ آپ کیا احساس کر رہے ہیں؟ کہا میں ایک حکم الٰہی کو جاری کرنے کے لئے اپنا وظیفہ پورے کرنے جا رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ مرجعیت اور ولایت فقیہ کے خلاف اتنا شور کرتے ہیں انہیں جاننا چاہئے کہ تقویٰ کے ساتھ علماء نے نظام ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کو آہستہ آہستہ، جتنی ان کی طاقت تھی، نافذ کرنے کی کوشش کی۔ آج ان دو بزرگوار اور باقی بزرگواروں کی برکت سے دنیا میں سیاست کی تعریف بدل گئی۔ مظلوموں میں کھڑے ہونے کی طاقت پیدا ہوگئی۔ کشمیریوں سے پوچھ لیجئے کہ تم کو کیسے ہوش آیا کہ ہمیں بھی کھڑ ا ہونا چاہئے۔ فلسطینیوں سے پوچھ لیجئے کہ تمہیں کیسے ہوش آیا کہ تمہیں کھڑا ہونا چاہئے۔
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ آج تین طاقتیں ایسی ہیں کہ جو انقلاب کی برکت سے دشمنوں کے مقابلہ میں کھڑی ہوئیں اور کامیاب ہیں۔ اب طاقتور کہتے ہیں کہ بیٹھ جاؤ، وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہم اپنا حق لے کر رہیں گے۔ پہلی طاقت یمن کے حوثی ہیں۔ اخباروں کی کل کی تحلیل پڑھ لیجئے۔ سعودیہ اور امریکہ کی طرف سے انہیں بلایا جا رہا ہے لیکن ان کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ابھی تو ہم اٹھے ہیں۔ دوسری طاقت حماس ہے۔ ماضی میں ان کی کیا طاقت تھی اور آج یہ کس مقام پر ہیں! امریکہ پریشان ہے کہ تین ہزار میں سے چالیس راکٹ جو کہیں بھی گر سکتے تھے، کیسے ڈوم میں داخل ہوگئے۔ حماس سے کہا جا رہا ہے بیٹھ جاؤ لیکن حماس کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ٹھہرو، ابھی تو ہم اٹھے ہیں۔ اس کے بعد کشمیری ہیں۔ ظلم پر ظلم ہو رہے ہیں لیکن کہہ رہے ہیں کہ ابھی ٹھہرو ابھی تو ہمت آئی ہے۔ ابھی تو ہم ظالم مودی کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔یہ حضرت امام خمینیؒ اور موجودہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی محنتیں اور برکتیں ہیں کہ مکتب تشیع کو عزت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ مکتب تشیع کو عقل کا مکتب کہا جا رہا ہے۔ حزب اللہ کو BAN کرتے وقت، ہزاروں غیر مسلموں نے کہا تھاکہ یہ تو اپنے حق کے لئے کھڑے ہو رہے ہیں، امریکہ ان پر پابندی کیوں لگا رہا ہے؟ یاد رکھئے گا کہ یہ مکتب اہل بیت علیہم السلام کی خوبی ہے کہ نہ صرف خود ظالم کے خلاف آواز اٹھاتے کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی ہمت دلاتا ہے۔ میں نے فیس بک پر اسماعیل ہانیہ کا وہ پیغام شیئر کیا کہ جس میں انہوں نے کہا کہ کسی نے گندم بھیجی، کسی نے چاول بھیجے، لیکن ایران نے ہماری یہ مدد کی کہ ہمیں اسلحہ سے لیس کردیا۔ اور اس کی مدد سے ہم نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ یہ پوسٹ شیئر کرنے پر میرا فیس بک ایک مہینے کے لئے بند کردیا گیا کہ آپ لائیو ٹرانسمیشن نہیں کرسکتے۔ کل فیس بک کے ورکر نے آواز اٹھائی ہے کہ اسرائیل کے خلاف آنے والی ہر خبر کو آپ بلاک کردیتے ہیں۔ کہاں گئی آزادیٔ بیان؟ امام خمینیؒ نے دنیا کو یہ فہم اور توجہ دلائی۔
انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ اور یورپ کو ایران سے خوف ہے تو وہ ایران کے ایٹم بم کی وجہ سے نہیں ہے، پوری ذمہ داری سے بات کر رہا ہوں، ایران سے اگر پرابلم ہے تو ایران کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ”اے سلمانؑ! تمہاری قوم، اگر علوم ستاروں پر ہوں گے تو وہاں سے توڑ کر لے آئیں گے۔“ آج ایرانی قوم ٹیکنالوجی میں خواہ وہ میڈیکل ٹیکنالوجی ہو، نینو ٹیکنالوجی ہو یا دیگر، اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ لوگ حیران ہیں کہ اتنی پابندیوں کے باوجود یہ لوگ کیسے ترقی کر رہے ہیں۔ یہ اس لئے نہیں کہ ایرانی ہیں، بلکہ اس لئے کہ اہل بیت علیہم السلام کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ جو قوم اہل بیت علیہم السلام کے نقش قدم پر چلے گی، اللہ تعالیٰ اسے عزت و مقام دے گا۔
علامہ شبیر میثمی کا مزید کہنا تھا کہ دو تین بہت اہم امور ہیں جن کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس لئے کہ توجہ رکھنا بہت ضروری ہے۔ تاریخ میں سپرپاور کی ذلت اور رسوائی دیکھنی ہو، سپرپاور کی ناک رگڑے جانے کی تصویر دیکھنی ہو تو آپ افغانستان میں دیکھ سکتے ہیں۔ امریکہ نے فیصلہ کیا ہے کہ چار جولائی تک نائن الیون کی بنیاد پر جس جنگ کو شروع کیا تھا وہ ختم کرکے افغانستان سے واپس نکل جائے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ تمہیں اس میں کتنے فیصد کامیابی ہوئی؟ کامیابی تو نہیں ملی، ناکامی ان کا مقدر ہوئی ہے۔ ان کے کتنے فوجی مارے گئے، کتنے افغانی شہید ہوئے، کتنی ان کی اقتصاد کی تباہی و بربادی ہوئی۔ اب اس سے بڑا بم پھٹنے جا رہا ہے۔ اور وہ بم وہی ہے جو امریکہ کے آنے سے پہلے اور روس کے بھاگنے کے بعد ہوا۔ وہاں قبائلی نظام ہے۔ جب دشمنی کرتے ہیں تو ایسی کہ مثال کے طور پر ایک قبیلہ کے 250 افراد کو پکڑ کر ایک کنٹینر میں چھوڑ دیا۔ جب کئی دنوں بعد کنٹینر کو کھولا تو وہ ایسی بری حالت میں مرے ہوئے تھے کہ آپ تصور نہیں کرسکتے۔ پچیس ہزار مومنین کو مزار شریف میں شہید کیا گیا۔ اس طرح کے کئی دیگر واقعات ہیں۔ ہم پھر سے اسی طرف جا رہے ہیں۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم افغانستان کے پڑوسی ہیں۔ ہم نے کئی غلطیاں بھی کی ہیں۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں اس کی قیمت بھگتنی پڑے گی۔ میں جان بوجھ کر جملہ کہہ رہا ہوں کہ میں ہمیں اس کی قیمت ادا نہیں بلکہ بھگتنی پڑے گی۔ کتنی قیمت؟ اس کا فیصلہ زمانہ اور تاریخ کرے گا۔ اس لئے کہ امریکہ اور نیٹو کی فوج کے واپس جانے کے بعد وہاں پر کس کا کنٹرول ہے؟ وہ کنٹرول کرنے والے ہمارے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ ہندوستان جیسا خبیث ملک وہاں کیا کردار ادا کر رہا ہے؟ اب پورا خطہ ایک خطرناک صورتحال میں داخل ہوگیا ہے۔ اب یہاں سے پاکستانی فوج کا کردار شروع ہوتا ہے۔ ترکی نے کچھ فیصلے کئے، پاکستان نے حامی بھری۔ امریکہ نے پاکستان کو درخواست بھیجی کہ ہمیں افغانستان سے نکلنے کے بعد آپ کے ملک میں ائیربیس چاہئے تاکہ ہم مانیٹر کرسکیں۔ ہماری مصدقہ اطلاع کے مطابق ہماری فوج نے واضح کردیا کہ ایک غلطی کردی اب دوسری غلطی نہیں کرسکتے ہیں۔